Thursday 31 August 2017

ملا تو بیتے دنوں کا سچ اُس کی آنکھوں میں تھا












اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں

وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اُسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں

تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں تیرا دوست بھی رہا ہوں

کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں

کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا
کہ میں تو خود اپنے گھر میں دوگھڑی رہا ہوں

ملا تو بیتے دنوں کا سچ اُس کی آنکھوں میں تھا
وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا پوں

بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن
گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں

وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اُس کا کبھی رہا ہوں

No comments:

Post a Comment